-->

Sunday, September 29, 2019

بال جبریل Dr. Muhammad Allama Iqbal

بال جبریل

جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی
عطار ہو ، رومی ہو ، رازی ہو ، غزالی ہو

کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آہ سحر گاہی
نومید نہ ہو اِن سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے زوق نہیں راہی

اے طائرِ لاہُوتی! اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز سے کوتاہی
دار و سکندر سے وہ مرد فقیر اَولٰی

ہو جس کی فقیری میں بُوۓ اسدُاللّہی
آئین جوانمردی حق گوئی و بے باکی
اللّہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے

جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لا اِلٰہ میں ہے

وہی جہاں  ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں جو تری نگاہ میں ہے
مہ و ستارہ سے آگے مَقام ہے جس کا

وہ مُشتِ  خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے

تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہاں تازہ مِری آہ صبح گاہ میں ہے

مِرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے



©TEW™®
x
NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
 

Delivered by FeedBurner