-->

Thursday, July 12, 2018

فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ بہت پرانی ہے 17ویں صدی سےلے کر آج تک ہندوستان میں لاکھوں فسادات ہو چکے ہیں۔مئی 2001کو شائع ایک مضمون کے مطابق اگر کرائم ریکارڈ بیوروکے اعدادوشمار کو شچ مانا جائے تو آزادی سےاب تک ملک میں 20 لاکھ سے زیادہ فسادات پولیس روزنامچوں میں درج ہے ہوچکے ہیںان میں اترپریش میں 2لاکھ 25ہزار، مہاراشٹر میں 3 لاکھ 75 ہزار، ہریانہ میں 1لاکھ 25 ہزار، پنجاب میں 2 لاکھ، راجستھان میں 1لاکھ 25 ہزار معاملے درج ہیں دراصل ایک فساد جتنے دنوں تک چلتا ہے اس کے الگ الگ جتنے سارے معاملے درج ہوتےہیں یہ اعدادوشمار اسی پر مبنی ہیں ہر معاملے کو ایک فساد درج کیا جاتا ہےآزادی کے فورا بعد نواکھالی سے شروع ہونے والے فسادات کانپور،علی گڑھ،مراد آباد،حیدرآباد،بہارشریف،بھاگلپور،جمشید پور وغیرہ وغیرہ ہو تے ہوئے گجرات پہنچ کر اپنی انہتا پر پہنچ گئے جہاں فسادات نے مسلمانوں کی نسل کشی کی شکل اختیار کر لی اور مسلمانوں کے خلاف ظلم کی سبھی حدیں توڑ دی گئیںآزادی کے بعد ہونے والے ان فسادات کی جانچ کے لیے  اب تک تین درجن سے بھی زیادہ جانچ کمیشن بن چکے ہیں لیکن اب تک ان کی رپورٹوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہےبھارت میں ہونے والے کچھ اہم فسادات پر ایک نظر1967رانچی فساداترانچی میں 22اگست 1967کو اردو کےخلاف ہندو طلبہ کے جلوس پر مسلمانوں کے پتھراؤ سے فساد شروع ہوا۔پتھراؤ کے بعد اس جلوس نے پورے شہر میں تباہی مچادی۔ 22اگست سے26 اگست کے درمیان 184 لوگ مارے گئے جن میں 164 مسلمان تھے1979جمشید پور فساداپریل 1979میں رام نومی کے موقع پر جمشید پور میں فساد بھڑکا وجہ وہی رام نومی کے جلوس پر مسجد سے پتھر پھینکا جانا ۔جمشید پور میں یہ جلوس برسوں سے نکل رہا ہے۔لیکن 1978میں پہلی بار اس کا روٹ بدل دیا گیا یہ راستہ مسلم اکثریتی علاقہ سے ہو کر جاتا تھا اس سال تو جلوس کسی طرح گزرِ گیا لیکن 1979 میں انتظامیہ نے اسکی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔سخت گیر ہندو تنظیمیں شہر میں فساد کرانے پر آمادہ تھیں اس لیے انہوں نے انتظامیہ کی بات سے انکار کردیا۔11 اپریل 1979 کے جلوس میں کھل کر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی گئئ جلوس میں اسلحوں سے لیس ہزاروں لوگ شامل تھے۔اس لیے


فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ

ہندوستان میں فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ بہت پرانی ہے 17ویں صدی سےلے کر آج تک ہندوستان میں لاکھوں فسادات ہو چکے ہیں۔مئی 2001کو شائع ایک مضمون کے مطابق اگر کرائم ریکارڈ بیوروکے اعدادوشمار کو شچ مانا جائے تو آزادی سےاب تک ملک میں 20 لاکھ سے زیادہ فسادات پولیس روزنامچوں میں درج ہے ہوچکے ہیں

ان میں اترپریش میں 2لاکھ 25ہزار، مہاراشٹر میں 3 لاکھ 75 ہزار، ہریانہ میں 1لاکھ 25 ہزار، پنجاب میں 2 لاکھ، راجستھان میں 1لاکھ 25 ہزار معاملے درج ہیں دراصل ایک فساد جتنے دنوں تک چلتا ہے اس کے الگ الگ جتنے سارے معاملے درج ہوتےہیں یہ اعدادوشمار اسی پر مبنی ہیں ہر معاملے کو ایک فساد درج کیا جاتا ہے

آزادی کے فورا بعد نواکھالی سے شروع ہونے والے فسادات کانپور،علی گڑھ،مراد آباد،حیدرآباد،بہارشریف،بھاگلپور،جمشید پور وغیرہ وغیرہ ہو تے ہوئے گجرات پہنچ کر اپنی انہتا پر پہنچ گئے جہاں فسادات نے مسلمانوں کی نسل کشی کی شکل اختیار کر لی اور مسلمانوں کے خلاف ظلم کی سبھی حدیں توڑ دی گئیں

آزادی کے بعد ہونے والے ان فسادات کی جانچ کے لیے  اب تک تین درجن سے بھی زیادہ جانچ کمیشن بن چکے ہیں لیکن اب تک ان کی رپورٹوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا ہے

بھارت میں ہونے والے کچھ اہم فسادات پر ایک نظر

1967رانچی فسادات

رانچی میں 22اگست 1967کو اردو کےخلاف ہندو طلبہ کے جلوس پر مسلمانوں کے پتھراؤ سے فساد شروع ہوا۔پتھراؤ کے بعد اس جلوس نے پورے شہر میں تباہی مچادی۔ 22اگست سے26 اگست کے درمیان 184 لوگ مارے گئے جن میں 164 مسلمان تھے

1979جمشید پور فساد

اپریل 1979میں رام نومی کے موقع پر جمشید پور میں فساد بھڑکا وجہ وہی رام نومی کے جلوس پر مسجد سے پتھر پھینکا جانا ۔جمشید پور میں یہ جلوس برسوں سے نکل رہا ہے۔لیکن 1978میں پہلی بار اس کا روٹ بدل دیا گیا یہ راستہ مسلم اکثریتی علاقہ سے ہو کر جاتا تھا اس سال تو جلوس کسی طرح گزرِ گیا لیکن 1979 میں انتظامیہ نے اسکی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔سخت گیر ہندو تنظیمیں شہر میں فساد کرانے پر آمادہ تھیں اس لیے انہوں نے انتظامیہ کی بات سے انکار کردیا۔11 اپریل 1979 کے جلوس میں کھل کر طاقت کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی گئئ جلوس میں اسلحوں سے لیس ہزاروں لوگ شامل تھے۔اس سے پہلے کہ پولیس سنبھل پاتی یہ جلوس متنازعہ راستہ میں داخل ہو گیا جسے ایک مسجد کے سامنے روک دیاگیا۔ اسے پہلا پتھر مل گیا اور پھر پورے شہر میں قتل عام شروع ہو گیا اس طرح اکثریتی فرقہ کو اپنی پرتشدد وارداتوں کو جائز ٹھہرا نے کا لائیسنس مل چکا تھا۔

NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
 

Delivered by FeedBurner