کیا یہ اتفاق ہے یا کسی بہت بڑے کھیل کا حصہ؟؟؟
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں خوارج اور افغانستان میں امریکیوں کی کھلی شکست کے بعد اچانک منظور پشتین کا ظہور ہوتا ہے جو قبائلی علاقہ جات میں امن قائم کرنے والی پاکستان آرمی پر حملہ آور ہوکر قبائلی علاقہ جات سے پاک آرمی کا انخلا کا مطالبہ کردیتا ہے یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا جاتا ہے جب پاکستان طویل بدامنی کے دور سے باہر نکل کر امن کی جانب سفر شروع کرچکا ہے منظور پشتین کی پشتیبانی کے لئے بین الاقوامی طاقتیں بھی میدان عمل میں اتر آتی ہیں بی بی سی اور وائس آف امریکہ منظور پشتین کے ترجمان کا کردار ادا کرنے لگتے ہیں پاکستان میں رہ کر پاکستان کے وجود کی مخالفت کرنے والے سارے عناصر بھی منظور پشتین کی ہمنوائی کرنے لگتے ہیں انتہائی حیرت انگیز طور پر مسلم لیگ ن جیسی جماعت بھی منظور پشتین کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے اس کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہے
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ پانامہ کے ہنگاموں میں پھنسے نواز شریف صاحب بھی بے وقت کی راگنی الاپتے ہوئے ممبئی اٹیکس کا ملبہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر ڈالنے لگتے ہیں کتنا عجب تماشہ ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف پاکستان میں بھاشن دے رہے ہیں اور جشن کا سماں بھارت میں دکھائی دے رہا ہے کسی شاعر نے کہا تھا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے یہاں توحیدی پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم بتکدہ ہند کی پاسبانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں نواز شریف صاحب کے نامعقول بیان پر بجنے والی بھارتی شہنائیوں کی آوازیں ابھی ماند نہیں پڑیں کہ ایک دھماکہ ہوتا ہے پاکستان کی قابل فخر اور مشہور زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک سابقہ چیف اسد درانی میدان میں کود پڑتے ہیں اپنے بھارتی ہم منصب سابقہ را چیف اے ایس دلت کے ساتھ لکھی گئی کتاب منظر عام پر آجاتی ہے موصوف صرف آئی ایس آئی ہی نہیں ایم آئی کے بھی سربراہ رہے ہیں ان کی جانب سے کی گئی بات کا دنیا میں توجہ حاصل کرنا فطری امر ہے اور اگر یہ بات پاک آرمی یا آئی ایس آئی کے حوالہ سے کی گئی ہو اور وہ بھی تنقیدی انداز میں تو سمجھ لیجئے کہ دشمن کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اسد درانی صاحب نے یہی کارنامہ سرانجام دیا وطن عزیز کے دشمن کے ساتھ بیٹھ کر کتاب لکھنا اسے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے چھپوانے کا اہتمام کرنا ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کیا ہوں گے
اسد درانی صاحب نے 1993 میں بننے والی حریت کانفرنس کی تشکیل کو آئی ایس آئی کا کارنامہ قرار دیا ( واضح رہے کہ موصوف 1991 میں فوج سےریٹائر ہوگئے تھے بلکہ کردئیے گئے تھے ) ایک اور انکشاف کرتے ہوئے درانی صاحب نے فرمایا اسامہ بن لادن کی امریکہ کو اطلاع شکیل آفریدی نے نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسر نے دی تھی جس کے عوض اس نے امریکی شہریت اور لاکھوں ڈالرز کا معاوضہ مطالبہ کیا تھا اس کتاب میں کارگل جنگ کو پاکستانی فوج کی حماقت قرار دے کر کتاب کو بھارت کے لیے مزید قیمتی بنا دیا گیا پاکستان میں ہر قسم کی بدامنی اور فساد کی جڑ را کے سابقہ سربراہ کے ساتھ بیٹھ کر درانی صاحب نے پاک و ہند کی کنفیڈریشن کا بھی مطالبہ کردیا کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک کنفیڈریشن قائم کرنی چاہئے جس میں دفاع خارجہ اور کرنسی مشترکہ ہو ذرا سوچئے تقسیم ہند کے وقت سے بھارت ماتا کو ٹکڑوں میں بنتے دیکھ کر پیچ و تاب کھانے والے متعصب ہندو درانی صاحب کی اس خواہش کو سن کر خوشیوں کے کس عالم میں ہونگے
اس کتاب کے مندرجات کے ساتھ ساتھ اس کے منظر عام پر آنے کا وقت دیکھ کر بہت آسانی سے کوئی عام پاکستانی بھی سمجھ لیتا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے یا لکھوانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے منظور پشتین کی تحریک اس کے بعد نواز شریف کے پاکستانی اداروں کے خلاف منفی بیانات کا تسلسل اور پھر اسد درانی کی کتاب یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے یہی ففتھ جنریشن وار فئیر ہے جس میں کسی بھی ملک کی عوام کو اس کی فوج کے خلاف بھڑکا کر عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے اور پھر اس خلیج سے فائدہ اٹھا کر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
اسد درانی صاحب کے ماضی پر نظر ڈالنے سے بھی بات آپ کو سمجھ آئیگی یہ وہ حضرت ہیں جنہوں نے بینظیر حکومت کی مخالفت میں آئی جے آئی بنا کر نواز شریف کو فائدہ پہنچایا تھا اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ کی مخالفت کے باوجود یہ نوٹوں سے بھرے بیگ نواز شریف کا پہنچاتے رہے تھے اسی وجہ سے انہیں آئی ایس آئی سے فارغ کردیا گیا آئی ایس آئی سے فراغت کے بعد بھی جب حضرت باز نہیں آئے تو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں جبری ریٹائر کرکے فوج سے ہی فارغ کردیا نواز شریف کی حکومت آنے پر پرانی شناسائی کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں جرمنی میں سفیر لگادیا گیا تھا فوج اور آئی ایس آئی سے جبری رخصتی نے ان کے دل میں فوج کے خلاف بغض پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جرمنی میں سفارت کے دور میں حضرت نے اپنے بیٹے عثمان کو جرمنی کی ایک کمپنی میں ملازم لگوایا تھا یہی بیٹا عثمان کمپنی کی طرف سے بھارت گیا تو مشکوک حرکات کے جرم میں اسے پکڑ لیا گیا اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے جنرل درانی نےسابقہ را چیف ایس کے دلت سے رابطہ کیا اور اس رابطہ نے پھر کیا گل کھلائے آپ کے سامنے ہے
حضرات یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ نواز شریف پر بھارت نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے
یہ سرمایہ کاری تقریباً ضائع ہوچکی ہے نواز شریف کے فوج مخالف بیانات کے بعد ان کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہورہی ہے جہلم چشتیاں اٹک اس کی بہت بڑی مثال ہیں اور بھیرہ میں تو صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ نواز شریف صاحب اور انکی صاحبزادی کو وہاں جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی
نواز شریف کی تیزی سے گرتی ہوتی مقبولیت نے انڈین ایجنسی را کو بوکھلا دیا انہیں نواز شریف کی ناکامی کی صورت میں پاکستان میں چلنے والے اپنے سارے منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دینے لگے اسی بوکھلاہٹ میں اس نے جنرل درانی کی کتاب کو منظر عام پر لا کر نواز شریف کی مدد کا فیصلہ کیا لیکن یہاں بھی ان سے ایک خطا ہوگئی انڈین را سے بہت قریبی سمجھے جانے والے اخبار انڈین دی ہندو اور مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل نے کتاب کی تقریب رونمائی سے پہلے ہی اس کے مندرجات سوشل میڈیا پر چڑھا کر پاک آرمی کے لتے لینے شروع کردئیے
جنرل درانی کی کتاب پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اپنی ذلت آمیز ریٹائرمنٹ کے بعد کے واقعات کو موضوع بحث بناتے ہوئے جنرل درانی نے صرف بونگیاں ہی ماری ہیں اگر آپ کچھ عرصہ قبل سیفما کے اجلاس میں کی گئی نواز شریف کی تقریر سن لیں تو سمجھ آجائیگی کہ اس تقریر اور اس کتاب کے پیچھے کون سے عناصر موجود ہیں
نواز شریف نے جنرل درانی کی کتاب کے مندرجات منظر عام پر آتے ہی جنرل درانی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا مریم بی بی اور ان کا سوشل میڈیا سیل بھی اسی مطالبے کو لئے میدان عمل میں نکل آیا اور پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا کہ جنرل درانی چونکہ فوجی ہے اس لئے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی نواز شریف کے محبوب اور سابقہ چئیرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی سینیٹ میں بڑی دھواں دار تقریر کرکے پاک آرمی کو بیک فٹ پر لانے کی کوشش کی لیکن پاک آرمی آج کل فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی عادی ہوچکی ہے اس لئے جنرل درانی کے خلاف فوری کاروائی شروع کرتے ہوئے اسے جی ایچ کیو بلوالیا گیا جہاں اس کی وضاحت سے غیر مطمئن فوجی قیادت نے جنرل درانی کا نام ای سی ایل میں ڈلوا تے ہوئے اس کا معاملہ ایک حاضر سروس جنرل کی قیادت میں قائم فارمل کورٹ آف انکوائری کے سپرد کردیا ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ جنرل درانی کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں
پیارے پاکستانیو
ہماری بہادر فوج اس وقت ایک چومکھی جنگ لڑنے میں مصروف ہے دشمن مختلف بہروپ بدل بدل کر وطن عزیز پر حملے کرنے میں مصروف ہے ہماری فوج دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی فوج ہے اس فوج کا سب سے بڑا ہتھیار عوام کو اعتماد ہے اس اعتماد کو توڑنے کیکئے دشمنان پاکستان مختلف اوقات میں مختلف کارندے میدان میں اتارتا ہے کبھی وہ نواز شریف کی طرح سیاسی جماعت کے رہنما کی صورت ہوتے ہیں تو کبھی ٹی ٹی پی کے ملا فضل اللہ کی طرح مذہبی جماعت کے سربراہ کی صورت کبھی لسانی بنیادوں پر مظلومیت کا ڈھونگ رچائے کوئی الطاف حسین محمود اچکزئی اور منظور پشتین میدان میں اتارتا ہے تو کبھی اپنی نااہلیوں کے صلے میں دھتکارے فوجی جنرل اسد درانی اور جنرل شاہد عزیز کی صورت اس لئے بہت چوکنا رہیے دشمن ہماری فوج اور ہمارے انٹلی جنس اداروں کو نقصان پہنچا کر ہمیں شام لیبیا عراق اور افغانستان بنانا چاہتا ہے لیکن اس کا یہ خواب کبھی بھی پورا ہوگا ان شاءاللہ پاکستانی عوام تحفظ پاکستان کے مشن میں پوری طرح اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں
پاکستان زندہ باد
پاک آرمی پائندہ
شاہد ملک
ابھی یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ پانامہ کے ہنگاموں میں پھنسے نواز شریف صاحب بھی بے وقت کی راگنی الاپتے ہوئے ممبئی اٹیکس کا ملبہ پاکستانی سیکیورٹی اداروں پر ڈالنے لگتے ہیں کتنا عجب تماشہ ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف پاکستان میں بھاشن دے رہے ہیں اور جشن کا سماں بھارت میں دکھائی دے رہا ہے کسی شاعر نے کہا تھا پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے لیکن یہاں معاملہ الٹا ہے یہاں توحیدی پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم بتکدہ ہند کی پاسبانی کرتے دکھائی دے رہے ہیں نواز شریف صاحب کے نامعقول بیان پر بجنے والی بھارتی شہنائیوں کی آوازیں ابھی ماند نہیں پڑیں کہ ایک دھماکہ ہوتا ہے پاکستان کی قابل فخر اور مشہور زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی کے ایک سابقہ چیف اسد درانی میدان میں کود پڑتے ہیں اپنے بھارتی ہم منصب سابقہ را چیف اے ایس دلت کے ساتھ لکھی گئی کتاب منظر عام پر آجاتی ہے موصوف صرف آئی ایس آئی ہی نہیں ایم آئی کے بھی سربراہ رہے ہیں ان کی جانب سے کی گئی بات کا دنیا میں توجہ حاصل کرنا فطری امر ہے اور اگر یہ بات پاک آرمی یا آئی ایس آئی کے حوالہ سے کی گئی ہو اور وہ بھی تنقیدی انداز میں تو سمجھ لیجئے کہ دشمن کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں اسد درانی صاحب نے یہی کارنامہ سرانجام دیا وطن عزیز کے دشمن کے ساتھ بیٹھ کر کتاب لکھنا اسے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے چھپوانے کا اہتمام کرنا ہی یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کیا ہوں گے
اسد درانی صاحب نے 1993 میں بننے والی حریت کانفرنس کی تشکیل کو آئی ایس آئی کا کارنامہ قرار دیا ( واضح رہے کہ موصوف 1991 میں فوج سےریٹائر ہوگئے تھے بلکہ کردئیے گئے تھے ) ایک اور انکشاف کرتے ہوئے درانی صاحب نے فرمایا اسامہ بن لادن کی امریکہ کو اطلاع شکیل آفریدی نے نہیں بلکہ آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسر نے دی تھی جس کے عوض اس نے امریکی شہریت اور لاکھوں ڈالرز کا معاوضہ مطالبہ کیا تھا اس کتاب میں کارگل جنگ کو پاکستانی فوج کی حماقت قرار دے کر کتاب کو بھارت کے لیے مزید قیمتی بنا دیا گیا پاکستان میں ہر قسم کی بدامنی اور فساد کی جڑ را کے سابقہ سربراہ کے ساتھ بیٹھ کر درانی صاحب نے پاک و ہند کی کنفیڈریشن کا بھی مطالبہ کردیا کہ پاکستان اور انڈیا کو ایک کنفیڈریشن قائم کرنی چاہئے جس میں دفاع خارجہ اور کرنسی مشترکہ ہو ذرا سوچئے تقسیم ہند کے وقت سے بھارت ماتا کو ٹکڑوں میں بنتے دیکھ کر پیچ و تاب کھانے والے متعصب ہندو درانی صاحب کی اس خواہش کو سن کر خوشیوں کے کس عالم میں ہونگے
اس کتاب کے مندرجات کے ساتھ ساتھ اس کے منظر عام پر آنے کا وقت دیکھ کر بہت آسانی سے کوئی عام پاکستانی بھی سمجھ لیتا ہے کہ اس کتاب کو لکھنے یا لکھوانے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے منظور پشتین کی تحریک اس کے بعد نواز شریف کے پاکستانی اداروں کے خلاف منفی بیانات کا تسلسل اور پھر اسد درانی کی کتاب یہ سب ایک ہی سلسلے کی کڑی ہے یہی ففتھ جنریشن وار فئیر ہے جس میں کسی بھی ملک کی عوام کو اس کی فوج کے خلاف بھڑکا کر عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کی جاتی ہے اور پھر اس خلیج سے فائدہ اٹھا کر افراتفری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے
اسد درانی صاحب کے ماضی پر نظر ڈالنے سے بھی بات آپ کو سمجھ آئیگی یہ وہ حضرت ہیں جنہوں نے بینظیر حکومت کی مخالفت میں آئی جے آئی بنا کر نواز شریف کو فائدہ پہنچایا تھا اس وقت کے آرمی چیف اسلم بیگ کی مخالفت کے باوجود یہ نوٹوں سے بھرے بیگ نواز شریف کا پہنچاتے رہے تھے اسی وجہ سے انہیں آئی ایس آئی سے فارغ کردیا گیا آئی ایس آئی سے فراغت کے بعد بھی جب حضرت باز نہیں آئے تو جنرل عبدالوحید کاکڑ نے انہیں جبری ریٹائر کرکے فوج سے ہی فارغ کردیا نواز شریف کی حکومت آنے پر پرانی شناسائی کی پاسداری کرتے ہوئے انہیں جرمنی میں سفیر لگادیا گیا تھا فوج اور آئی ایس آئی سے جبری رخصتی نے ان کے دل میں فوج کے خلاف بغض پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا جرمنی میں سفارت کے دور میں حضرت نے اپنے بیٹے عثمان کو جرمنی کی ایک کمپنی میں ملازم لگوایا تھا یہی بیٹا عثمان کمپنی کی طرف سے بھارت گیا تو مشکوک حرکات کے جرم میں اسے پکڑ لیا گیا اپنے بیٹے کی رہائی کیلئے جنرل درانی نےسابقہ را چیف ایس کے دلت سے رابطہ کیا اور اس رابطہ نے پھر کیا گل کھلائے آپ کے سامنے ہے
حضرات یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ نواز شریف پر بھارت نے بڑی سرمایہ کاری کی ہے
یہ سرمایہ کاری تقریباً ضائع ہوچکی ہے نواز شریف کے فوج مخالف بیانات کے بعد ان کے جلسوں میں لوگوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہورہی ہے جہلم چشتیاں اٹک اس کی بہت بڑی مثال ہیں اور بھیرہ میں تو صورتحال اتنی خراب ہوئی کہ نواز شریف صاحب اور انکی صاحبزادی کو وہاں جانے کی ہمت ہی نہیں ہوئی
نواز شریف کی تیزی سے گرتی ہوتی مقبولیت نے انڈین ایجنسی را کو بوکھلا دیا انہیں نواز شریف کی ناکامی کی صورت میں پاکستان میں چلنے والے اپنے سارے منصوبے ناکام ہوتے دکھائی دینے لگے اسی بوکھلاہٹ میں اس نے جنرل درانی کی کتاب کو منظر عام پر لا کر نواز شریف کی مدد کا فیصلہ کیا لیکن یہاں بھی ان سے ایک خطا ہوگئی انڈین را سے بہت قریبی سمجھے جانے والے اخبار انڈین دی ہندو اور مریم نواز کے سوشل میڈیا سیل نے کتاب کی تقریب رونمائی سے پہلے ہی اس کے مندرجات سوشل میڈیا پر چڑھا کر پاک آرمی کے لتے لینے شروع کردئیے
جنرل درانی کی کتاب پڑھنے سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ اپنی ذلت آمیز ریٹائرمنٹ کے بعد کے واقعات کو موضوع بحث بناتے ہوئے جنرل درانی نے صرف بونگیاں ہی ماری ہیں اگر آپ کچھ عرصہ قبل سیفما کے اجلاس میں کی گئی نواز شریف کی تقریر سن لیں تو سمجھ آجائیگی کہ اس تقریر اور اس کتاب کے پیچھے کون سے عناصر موجود ہیں
نواز شریف نے جنرل درانی کی کتاب کے مندرجات منظر عام پر آتے ہی جنرل درانی کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا مریم بی بی اور ان کا سوشل میڈیا سیل بھی اسی مطالبے کو لئے میدان عمل میں نکل آیا اور پروپیگنڈہ شروع کردیا گیا کہ جنرل درانی چونکہ فوجی ہے اس لئے اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی نواز شریف کے محبوب اور سابقہ چئیرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی سینیٹ میں بڑی دھواں دار تقریر کرکے پاک آرمی کو بیک فٹ پر لانے کی کوشش کی لیکن پاک آرمی آج کل فرنٹ فٹ پر کھیلنے کی عادی ہوچکی ہے اس لئے جنرل درانی کے خلاف فوری کاروائی شروع کرتے ہوئے اسے جی ایچ کیو بلوالیا گیا جہاں اس کی وضاحت سے غیر مطمئن فوجی قیادت نے جنرل درانی کا نام ای سی ایل میں ڈلوا تے ہوئے اس کا معاملہ ایک حاضر سروس جنرل کی قیادت میں قائم فارمل کورٹ آف انکوائری کے سپرد کردیا ہے جو اس بات کا تعین کرے گی کہ جنرل درانی کا کورٹ مارشل ہوسکتا ہے یا نہیں
پیارے پاکستانیو
ہماری بہادر فوج اس وقت ایک چومکھی جنگ لڑنے میں مصروف ہے دشمن مختلف بہروپ بدل بدل کر وطن عزیز پر حملے کرنے میں مصروف ہے ہماری فوج دنیا میں سب سے زیادہ قربانیاں دینے والی فوج ہے اس فوج کا سب سے بڑا ہتھیار عوام کو اعتماد ہے اس اعتماد کو توڑنے کیکئے دشمنان پاکستان مختلف اوقات میں مختلف کارندے میدان میں اتارتا ہے کبھی وہ نواز شریف کی طرح سیاسی جماعت کے رہنما کی صورت ہوتے ہیں تو کبھی ٹی ٹی پی کے ملا فضل اللہ کی طرح مذہبی جماعت کے سربراہ کی صورت کبھی لسانی بنیادوں پر مظلومیت کا ڈھونگ رچائے کوئی الطاف حسین محمود اچکزئی اور منظور پشتین میدان میں اتارتا ہے تو کبھی اپنی نااہلیوں کے صلے میں دھتکارے فوجی جنرل اسد درانی اور جنرل شاہد عزیز کی صورت اس لئے بہت چوکنا رہیے دشمن ہماری فوج اور ہمارے انٹلی جنس اداروں کو نقصان پہنچا کر ہمیں شام لیبیا عراق اور افغانستان بنانا چاہتا ہے لیکن اس کا یہ خواب کبھی بھی پورا ہوگا ان شاءاللہ پاکستانی عوام تحفظ پاکستان کے مشن میں پوری طرح اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں
پاکستان زندہ باد
پاک آرمی پائندہ
شاہد ملک