-->

Monday, June 4, 2018

قیام رمضان یا تراویح كی فضیلت


    

                              آئـیـے دیـن سـیـکـھـیـں
                            *قیام رمضان یا تراویح كی فضیلت*


 قیام كا مطلب كھڑے ہونا، اور لیل كہتے ہیں رات كو ۔ قیام اللیل یعنی:  رات كی نماز۔
 رات كی عبادت كے لئے كتاب وسنت میں یہ لفظ استعمال ہوا ہے، كیونكہ قیام اللیل كا ایک اہم مقصد قرآن كریم كی زیادہ سے زیادہ تلاوت ہے، اور اس كے لئے لمبے وقت تک كھڑا ہوا جاتا ہے، جبكہ دن كی نمازوں میں تھوڑا كھڑا ہوا جاتا ہے۔
♦ اللہ تعالی كا یہ فرمان بغور مطالعہ فرمائیں:  (ترجمہ)" اے چادر میں لپٹنے والے (یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم)۔ رات کا تھوڑا حصہ چھوڑ کر باقی رات میں (عبادت کے لیے) کھڑے ہوجایا کرو۔ رات کا آدھا حصہ، یا آدھے سے کچھ کم کرلو۔ یا اس سے کچھ زیادہ کرلو، اور قرآن کی تلاوت اطمینان سے صاف صاف کیا کرو۔ " (المزمل:1-4)
 چنانچہ رب كریم كے اس حكم كی بنا پر رمضان وغیر رمضان میں قیام اللیل سنت مؤكدہ ہے، كتاب وسنت میں قیام اللیل كی رغبت دلانے والی اور اس كی فضیلت بیان كرنے والی نصوص بكثرت اور بتواتر وارد ہوئی ہیں، جیسا كہ اوپر سورۂ مزمل كی آیات ذكر ہوئیں، یہاں ایک حدیث ہم اور ذكر كرتے ہیں:
♦ ارشاد نبوی ہے: " فرض نماز کے بعد سب سے افضل رات کی نماز ہے " ( مسلم:1163) ۔
( بلكہ قرآن كا كچھ حصہ عطا ہونے كے بعد اس سے غفلت برتنے والوں كے حق میں تو بعض حدیثوں میں وعیدیں بھی ہیں۔ اللہ ہم سب كو اس غفلت سے نكلنے كی توفیق عنایت فرمائے۔)
 رمضان میں قیام اللیل كی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے، تراویح اسی قیام اللیل كا حصہ ہے، اس كی مسنونیت پر پوری امت كے علماء كا اجماع (اتفاق) ہے۔
♦ ابوہریرہ (رضی اللہ عنہ) کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تاکیدی (يعنی واجبی) حکم دئیے بغیر رمضان کے قیام کی ترغیب دلاتے، اور  فرماتے :" جس نے رمضان میں ایمان كے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔" (ابو داؤد:808، اس میں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم كا قول متفق علیہ ہے).
 شرح: رمضان میں قیام كرنے سے مراد پورے مہینے كی راتوں میں "قیام اللیل" (یا تراویح) كا اہتمام كرنا۔ 
 ایمان كے ساتھ، یعنی اللہ كے (اجر وثواب كے)سچے وعدے پر ایمان كے ساتھ۔ 
 ثواب كی نیت سے یعنی ریاكاری یا كسی دنیوی غرض سے نہیں۔
 اس سے معلوم ہوا كہ پورے رمضان تراویح كا اہتمام كرنا ہی سنت ہے، اور اسی كی یہ فضیلت ہے۔
 رہا قرآن كریم كو مكمل پڑھنا تو یہ ایک الگ اور مستقل سنت ہے، اسكو آسانی كے لئے تراویح كے ساتھ جمع كردیا گیا ہے، اور اس میں كوئی حرج نہیں  كہ دونوں فضیلتیں ایک ساتھ حاصل ہوجائیں۔ لیكن صرف قرآن كے مكمل ہونے تک تراویح پڑھنا پھر اسے چھوڑ دینا بہت بڑی غلطی ہے، كیونكہ اس سے آپ كو مكمل قیام رمضان كی فضیلت حاصل نہیں ہوگی، اور آپ بڑے ہی عظیم اجر سے محروم رہ جائیں گے۔  بلكہ آخری دس راتوں كی عبادت كی تو كچھ الگ ہی بات ہے۔
 دوسری بات یہ ہے كہ عموما جس اندازسے جلدی جلدی قرآن پڑھ كر كچھ ہی دنوں میں ختم كردیا جاتا ہے، گویا كہ كوئی بوجھ سر سے اتار دیا گیا، ڈر ہے كہ اس میں ثواب كی جگہ ہم گناہ كے مستحق ہوجائیں۔ اول تو قرآن كو مكمل پڑھنا اور سننا سنت ہے، جلدی جلدی پڑھنے میں اسے مكمل سننا ممكن ہی نہیں ہوتا، پھر اللہ كا حكم ہے كہ "قرآن كو خوب ٹھہر ٹھہر كر (ترتیل كے ساتھ) پڑھو" (المزمل:4)،  جلدی جلدی قرآن پڑھنے میں قرآن كے اس حكم كی مخالفت بھی ہے، اور اس طریقے كی بھی مخالفت ہے جس كے مطابق قرآن كی تعلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی، بسا اوقات تو یہ چیز قرآن كریم كی توہین تک پہنچ جاتی ہے، اللہ ہمیں ایسے كسی سنگین جرم میں مبتلا ہونے  سے بچائے۔
نیز نماز میں اگر اسكے تمام اركان كو مكمل طور پر ادا نہ كیا جائے، اطمینان كے ساتھ ركوع اور سجدے نہ كئے جائیں، تو وہ نمازہی كیا؟ اللہ كو ایسی كسی نماز كی بھلا كیا ضرورت ہے جس كو پڑھنے والا كوئی خانہ پری كر رہا ہواور بوجھ اتار رہا ہو؟؟
اللہ تعالٰی ہم کو صحیح سمجھ کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق دے آمین.
 *رمضان المبارک 1439ھــ*
                     •┈┈•┈┈•⊰✿✿⊱•┈┈•┈┈
 
 

Delivered by FeedBurner