سکوں درکار ہے لیکن سکوں حاصل نہیں ہوتا
زرا جو دل ٹھہرا دے وہ درد دل نہیں ہوتا
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
کہتے ہیں جسے سکوں نہیں ہے
کبھی ہر جلوہ، صد رنگ حاصل تھا نگاہوں کو
اب اشک خوں بھی چشم شوق کو حاصل نہیں ہوتا
ہر اک کار تمنا پر یہ مجبوری یہ مختاری
مجھے آساں نہیں ہوتا تجھے مشکل نہیں ہوتا
ہمیں ہنگامہ آرا تھے مگر جب سے ہم ڈوبے ہیں
کہیں طوفان نہیں اٹھتا ، کہیں ساحل نہیں ہوتا
تماشا سوز ہے ہر جلوہ انداز یکتائی
تمہیں تم ہو، کوئی پردہ بھی اب حائل نہیں ہوتا
رہا اک اک قدم پر پاس آداب طلب ورنہ
وہاں ہم تھے جہاں پانا ترا مشکل نہیں ہوتا
ازل سے اپنا مقصود طلب ہے کون اے تابش
کہ پائے جستجو شرمندہ منزل نہیں ہوتا