-->

Sunday, August 12, 2018

سکوں درکار ہے لیکن سکوں حاصل نہیں ہوتا

سکوں درکار ہے لیکن سکوں حاصل نہیں ہوتا
زرا جو دل ٹھہرا دے وہ درد دل نہیں ہوتا

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
                    سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں

بے تاب ہے اس جہاں کی ہر شے
                           کہتے ہیں جسے سکوں نہیں ہے

کبھی ہر جلوہ، صد رنگ حاصل تھا نگاہوں کو

اب اشک خوں بھی چشم شوق کو حاصل نہیں ہوتا

ہر اک کار تمنا پر یہ مجبوری یہ مختاری

مجھے آساں نہیں ہوتا تجھے مشکل نہیں ہوتا

ہمیں ہنگامہ آرا تھے مگر جب سے ہم ڈوبے ہیں

کہیں طوفان نہیں اٹھتا ، کہیں ساحل نہیں ہوتا

تماشا سوز ہے ہر جلوہ انداز یکتائی

تمہیں تم ہو، کوئی پردہ بھی اب حائل نہیں ہوتا

رہا اک اک قدم پر پاس آداب طلب ورنہ

وہاں ہم تھے جہاں پانا ترا مشکل نہیں ہوتا

ازل سے اپنا مقصود طلب ہے کون اے تابش

کہ پائے جستجو شرمندہ منزل نہیں ہوتا

NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
 

Delivered by FeedBurner