-->

Monday, July 30, 2018

(Muslim's are not terrorists مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں؟؟؟

۔آج میں جو مضمون لکھا رہا ہوں کچھ سمجھ نہیں آئے رہی ہے کہ کہاں سے شروع کروں کیونکہ میرا یہ مضمون مسلمان کیا دہشت گرد ہیں یہ بہت بڑا موضع ہے میرا آپ لوگوں سے یہ سوال ہےکہ کیا دنیا میں صرف ایک مسلمان ہی دہشت گرد ہیں؟؟ کیوں صرف مسلمانوں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے؟۔کیا دنیا میں صرف مسلمان ہی بستے ہیں کیا کوئی اور مذاہب کے لوگ دہشت گرد نہیں ہو سکتے۔لیکن آپ تاریخ اٹھا لیں مسلمانوں نے صرف اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے لیکن دنیا میں مسلمانوں کی امیج کو خراب کرنے کے لیے دنیا بھر کا میڈیا استعمال کیا جاتا رہا اور افسوس تو اس بات کا ہےاس میں ہمارے اپنے بھی شامل رہے ہیں اور
مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیتے رہے جس میں سرفہرست  بی بی سی  اور دوسرے چھوٹے بڑے چینلز کو استعمال کیا گیا لیکن کسی نے بھی حقیقت جاننے کی کوشش نہیں کی کہ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل کیوں لگایا جاتا رہا ہے۔
کیا آپ لوگوں کو پتہ نہیں ہے کہ بھارت،فلسطین،افغانستان،عراق،برما،کشمیر اور کہیں دوسرے جگہوں پر مسلمانوں کا قتل عام کیا جاتا رہا اور دنیا بھر کا میڈیا شور مچاتا  رہا کہ مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ لیکن کیا ہندو،یہودی،عیسائی مذہب کے لوگ دہشت گرد نہیں ہو سکتے ہیں کیونکہ  ان کو مسلمانوں کے قتل عام لوگوں کو لائیسنس مل چکا ہے۔
کیا صلیبی جنگیں کسی نے شروع کی کیا وہ مسلمانوں تھے یا عیسائی۔ فلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام کرنے والے کون تھے کیا وہ یہودی نہیں ہیں افغانستان اور عراق میں ہزاروں افراد کو قتل کیا گیا تھا کیا وہ مسلمان نہیں تھے۔اب تو ہوش کے ناخن لو مسلمانوں اب تو سمجھ جاؤ کے آپس کے اختلافات بھول جاؤ اور ایک ہو جاؤ ورنہ دنیا بھر کے غیر مسلم کی مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں
۔
وقت کا تقاضا ہے یہ کہ آپسی اختلاف کو مٹانے کے لیے کوششیں جاری رکھیں اور سنی،شیعہ،الحدیث اور دوسرے فرقوں میں اپنے آپ کو تقسیم نہ کریں کیونکہ دشمنوں چالباز ہےوہ مسلمانوں کو آپس میں لڑ کر ختم کرنے کی کوشش ضرور کریں گے
جب بھی کسی کے مسلک پر حملہ ہو تو صرف یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں کہ کون آپ کا دوست یا دشمن ہے۔لیکن ہم لوگوں کی مثال یہ کہ اگر پاس کوئی کتا پاس گزر جاۓ اور کو ئی کہ دےکہ کتا آپ کا کان کتا لیے گیا ہے ہم لوگ اپنے کان کو ہاتھ نہیں لگاتے اور کتے کے پچھاے بھاگ پڑھتے ۔۔

کیا افغانستان میں مسلمانوں کے قتل عام نہیں کیا گیا کیا امریکہ دہشت گرد نہیں ہے جس نے معدنیات کے حصول کے لیے ایک قوم کو غلام بنالیں اور افغانوں کے قتل عام پر کوئی انسانی حقوق کی این جی اوز نے نوٹس نہیں لیا کیونکہ وہ مسلمان تھے اگر کوئی یہودی یا عیسائیوں کا قتل عام ہوتا تو یہ این جی اوز شور مچاتا اور یہودی میڈیا مسلمانوں کو اور بدنام کر نے کی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔
افغانستان میں مسلمانوں کے قتل عام کرنے والے دنیا میں اپنے آپ کو انسانی حقوق کا علمبردار سمجھتے ہیں کہاں گئی انسانیت جب افغانستان اور عراق میں معدنیات اور تیل کے ذخائر کے حصول کے لیے لاکھوں افراد کو قتل اور گرفتار کیا گیا جن کو گرفتار کیا گیا ان کا آج تک پتہ نہیں جلا کے کہاں گئے۔
جس نے مسلمانوں کو قتل عام کیا وہ دہشت گرد نہیں اور جنوں نے اپنے حقوق کی آزادی کے لیے آواز اٹھائی وہ دہشت گرد قرار دیے جاتے ہیں تو کون دہشت گرد ہے؟۔
ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے والے یا مظلوموں کو قتل کرنے والے کو ئی نہیں ہے جو ہمارا ساتھ دے ہم آواز اٹھاتے ہیں تو ہمیں دہشت گرد کہاں جاتا ہے کیا کوئی یہودی،عیسائی اور ہندو دہشت گرد کیوں نہیں ہو سکتے ہیں اگر ظلم کے خلاف آواز اٹھانا دہشت گردی ہے تو مسلمان دہشت گرد ہے۔
مسلمانوں پر ظلم و تشدد کی کہیں مثالیں موجود ہیں چند ایک میں آپ کے گوشہ گوار کر رہا ہوں:
بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام:
آزادی کے فورا بعد نواکھالی سے شروع ہونے والے فسادات کانپور ،علی گڑھ، مراد آباد، حیدرآباد،بہار شریف،بھاگلپور،جمشید پور وغیرہ وغیرہ سے ہو تے ہوئے گجرات پہنچ کر اپنی انتہا پر پہنچ گئے جہاں فسادات نے مسلمانوں کی نسل کشی کی صورت اختیار کر لی مسلمانوں کے خلاف ظلم کی سبھی حدیں توڑ دی۔
1950 میں کالی کٹ،دہلی،پیلی بھیت، علی گڑھ اور بمبئ میں آر ایس ایس کے ذریعے کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر نے پر فساد بھڑکا۔
1967رانچی فسادات:
رانچی میں 22اگست 1967کو اردو کےخلاف ہندو طلبہ کے جلوس پر مسلمانوں کے پتھراؤ سے فساد شروع ہوا۔پتھراؤ کے بعد اس جلوس نے پورے شہر کو تباہی مچا دی۔22اگست سے 26 اگست کے درمیان 164 مسلمان تھے۔
1987میرٹھ فساد:
اترپریش کے اس مشہور صنعتی شہر میں انتظامیہ کی ڈھیل کی وجہ سے فرقہ وارانہ فسادات کی شروعات 16 اپریل 1987 کو شب برات کے دن سے ہوئی۔18اپریل 1987 کو ان عناصر نے دوبارہ فساد شروع کر دیا۔یہ حقیقت میں پولیس ایکشن تھا۔اس فسادات کی تباہی نے اپنے سامنے مراد آباد،پنت نگر اور آگرہ کے فسادات کو پیچھے چھوڑ دیا۔
22 مئ 1987 کو میرٹھ فسادات کے دوران پی اے سی اور فوج کے جوانوں نے ہاشم پورہ کے 50 روزے دار پچوں،جوانوں اور بوڈھوں کو گرفتار کر کے مراد نگر میں نہر کے کنارے گولیوں سے بھون کر نہر میں پھینک دیا۔ان میں 41 کی موت ہو گی۔
1992بمبئ فسادات:
بابری مسجد کی شہادت کے بعد بمبئ میں بڑ ے پیمانے پر فسادات بھڑک اٹھے۔ ٹائم آف انڈیا کے مطابق(23 جنوری 1993) 557 لوگ مارے گئے جس میں پولیس فائرنگ میں 133 لوگ مارے گئے
2002 گجرات فسادات:
گجرات فسادات میں سینکڑوں لوگوں کو زندہ جلا نے، سینکڑوں عورتوں کو آبروریزی کے بعد آگ کے حوالے کر دیا۔ 1993 کے فسادات میں 116 لوگ اور 2002 میں ہونے والے فسادات نے پچھلے سبھی ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 950 سے زائد اور غیر سرکاری طور پر 2000 سے زائد لوگ مارے گئے ہیں اب آپ لوگ توڑا سوچ کر دیکھو کون دہشت گرد ہے؟۔
بھارت میں فسادات کم از کم دو ہزار مارے گئے۔گجرات میں 500 مساجد، درگاہیں اور امام باڑہے مسمار کر دیے گئے۔
ایک ہی خاندان کے 19 افراد کو وحشیانہ تشدد کر بعد قید کر کے کمرے میں پانی بھر کر ہائی پاور کرنٹ چھوڑ دیا گیا۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ 6 سالہ معصوم عمران کے منہ میں پٹرول ول ڈال کر اسے دیا سلائی دکھائی گئی اور بچے کا سر دھماکے پھٹ گیا۔پیغام یہ تھا کہ مرنے کے بعد جلایا نہیں جاتا لہذا انہیں زندہ جلا دیا گیا۔ایک ہی وقت میں ڈیڑھ سو لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا،صرف ایک کنوئیں میں 80 مسلمانوں کو زندہ جلا کر ڈال دیا گیا۔
مسلمان ماؤں کے پیٹ کے بچوں سے لے کر قریب المرگ بزرگوں تک کو ہندو جنونیوں کی درندگی کا نشانہ بننا پٹرا۔
کنواری اور شادی شدہ مسلمان خواتین کو اجتماعی آبروریزی کا نشانہ بنانے کے بعد ان کے پوشیدہ اعضاء کاٹ کر جلا دئے گئے۔
ننھے منے بچوں کو اپنے پورے پورے خاندان کی لاشوں کے گرد پھر ے لینے(جیسے ہندو شادی پر لیتے ہیں) پر مجبور کیا گیا اور بعد میں انہیں ان کے پیاروں کی جلتی ہوئی لاشوں پر پھینک دیا گیا۔پولیس نے فسادیوں کے بجائے مسلمانوں پر گولی چلائی گئی۔ نوجوان لڑکیوں کو جنسی طور پر حملے کیے گئے اور ان  ریلیوں کو حکمران بی جے پی کی طرف سے سپورٹ حاصل کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے 200،000 لوگ بے گھر ہوئے اور ان فسادات میں قتل ہونے والے لوگوں کا اعداد و شمار کے مطابق  790 مسلمانوں کے سرکاری تخمینہ اور 254 ہندوؤں کی ہلاکت کے نتیجے میں، 2000 مسلمانوں کو قتل کیا گیا.  اس کے بعد وزیر اعلی نریندر مودی بھی تشدد کی شروعات اور نہ سنبھالنے پر الزام لگایا گیا ہے، جیسا کہ پولیس اور حکومتی حکام نے حصہ لیا، جیسا کہ انہوں نے فسادات کو ہدایت کی اور انتہا پسندوں کو مسلم ملکیت کی فہرستوں کی فہرست دی گئی تھی.
تین پولیس افسران کو بی جے پی کی طرف سے سزا دی گئی تھی وہ اس لیے کہ انہوں نے اپنے وارڈوں میں فسادات کے خاتمے کی کوشش کی تھی ان کو  سزا دی گئی تھی، تاکہ تشدد کی روک تھام میں مزید مداخلت نہ کریں۔
بھارت میں مسلمانوں کے قتل عام بدر نظیری کیا خوب لکھتے ہیں آپ ملاحظہ فرمائیں:

عبرت انگیز جان کا منظر
زندگی اف کمان کامنظر
                              قتل وغارت کی گرم بازاری
                              دیدنی ہے جہاں کا منظر
بال و پر خود ہی نوچ ڈالے ہیں
اب کہاں وہ اڑان کا منظر
                                 خون میں تیرتی ہوئی لاشیں
                                  شعلہ شعلہ مکان کا منظر
لٹ گئی ہر بساط فکر و گماں
خالی خالی دکان کا منظر
                                بدر چہرہ ہے کیوں غبار آلود
                               روح فرسا تھکان کا منظر

جل رہا ہے ہر طرف مسلماں کا گھر
پھر بھی کہتے ہیں مسلمان ہے دہشت گرد

افغانستان میں جنگ کے دوران (2018-2001)، 31،000 شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے ہلاک کیا گیا اور 29،900 شہریوں کو زخمی کردیا گیا ہے.  جنگ میں شہریوں، فوجیوں اور عسکریت پسندوں سمیت 111،000 سے زیادہ افغانوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔ اس جنگ کے متعلق غیر مستقیم وجوہات کی وجہ سے مرنے والے افراد کو معاصر تنازعات میں غیر مستقیم براہ راست موت کے لحاظ سے 360000 اضافی افراد کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔ یہ تعداد ان افراد میں شامل نہیں ہیں جو پاکستان میں مر چکے ہیں.

میانمار کے شمالی ریاست رخین میں اگست میں شروع ہونے والی ایک ہڑتال کے پہلے مہینے میں 6,700 سے زائد روہنگیا مسلمانوں سمیت پانچ سال سے کم عمر بچوں بھی شامل تھے۔
میانمار میں قتل ہونے والے 400 لوگوں کو سرکاری طور پر تصدیق کی گئی اور ہلاک ہونے والے لوگوں کی اکثریت (69فیصد)کو گولی مار دی گئی۔جبکہ دیگر افراد کو زندہ جلایا اور مارا گیا۔
فلسطین میں اسرائیلی فوج نے غزہ کے سرحدی علاقوں میں درجنوں فلسطینیوں کو ہلاک کردیا گیا۔
اسرائیلی فوج کی فائرنگ اور آنسو گیس اور دیگر جگہوں پر بھڑ کی منتقلی کے نتیجے میں مجموعی طور پر اب تک 2,410 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔14 مئی 2018 کو غزہ کی سرحد کے قریب اسرائیلی سیکورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران فلسطینیوں پر آنسو گیس استعمال کی گئی۔جھڑپوں کے دوران دو فلسطینی نوجوان لڑکے جن میں ایک کی عمر 16سال جبکہ دوسرے کی 14 سال کا تھا۔قطر کے نیوز نیٹ ورک نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ زخمی ہونے والے فلسطینی نیوز نیٹ ورک کے ایک صحافی جو اسرائیلی فوج کی گولہ باری میں زخمی ہو گیا تھا نے کہا کہ غزہ شہر کے مشرقی وسطی اور مشرقی الجزائر کے صحافی ویلد داہؤو کو گولی مار دی تھی۔ کیا یہ دہشت گردی نہیں ہے جب لوگ اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھائیں تو ان پر دہشت گردی کا لیبل لگا دیا جائے۔ کیا فلسطین میں حق خود ارادیت مانگے والوں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے کیوں ؟ ؟
عراق میں تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے والے کون ہیں ؟ کیا عراق میں مسلمانوں کا قتل عام نہیں کیا گیا۔جب آ پ کسی ملک پر حملہ کرتے ہیں یا  اُس پر قبضہ کرتے ہیں کیا اُن کو کوئی حق نہیں کہ اُس کے خلاف آواز بلند کرے عراق میں مسلمانوں کے قتل عام کرتے اور الزام lS یا االقاعدہ پر لگا دیا جاتا ہے کیوں کہ کہیں پر طالبان ہیں تو کہیں پر lS ہے۔کیوں صرف مسلمانوں کو ہی ٹارگٹ کیا جاتا ہے۔آج کے دور میں ایک ہندو،یہودی،عیسائی لوگوں نے بھی مسلمانوں جیسے نام رکھنے شروع کر دیے ہیں۔ آپ کسی کے نام کے بل بوتے پر کیسے کہ سکتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے یہ مسلمانوں کو بدنام کرنے کے غلط طریقے ہیں لیکن یہ لوگ نہیں جانتے کہ ان کے منفی پرپگنڈ کسی کام نہیں آئے گا۔ آپ سوچ کر دیکھو کون ہے دہشت گرد وہ جہنوں نے دوسرے کے گھروں پر قبضہ کیا ہے یا وہ جو اپنے حق خودارادیت کے لیے لڑ رہا ہیں آگے فیصلہ آپ خود کر کون سچ بول رہا ہے آخر کون ہے دہشت گرد؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
NEXT ARTICLE Next Post
PREVIOUS ARTICLE Previous Post
 

Delivered by FeedBurner